پنجاب پولیس نے ایک ایف آئی آر درج کی ہے جس میں نابالغ لڑکا عمر 14 سال پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے ایک مرغی کے ساتھ زنا کیا ہے اور زنا کرنے کے بعد اس نے مرغی کو جان سے مار دیا ہے۔ مرغی کے مالک نے پولیس سٹیشن میں شکایت کی جس پر فوری طور پر ایف آئی آر درج ہوگی۔
اس ایف آئی آر نے ہمارے موجودہ قوانین کے بارے میں بہت سے سوال پیدا کردیے ہیں۔ جس کو میں آج آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کے پیش ہونے سے بچا جاسکے۔
ایف آئی آر میں سیکشن 377 اور سیکشن 429 لگائی گئی ہیں۔ سیکشن 377 کہتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت یا جانور سے غیر فطری intercourse یا سیکس کرتا ہے تو ایسے شخص کو دس سال تک کی قید یا کم سے کم دو سال قید یا زیادہ سے زیادہ دس سال قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔
377. Unnatural offences
Whoever voluntarily has carnal intercourse against the order of nature with any man, woman or animal, shall be punished with imprisonment for life, or with imprisonment of either description for a term which shall not be less than two years nor more than ten years, and shall also be liable to fine.
Explanation: Penetration is sufficient to constitute the carnal intercourse necessary to the offence described in this section.
دوسرا سیکشن جو اس ایف آئی آر میں لگایا گیا ہے وہ ہے سیکشن 429 جو یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی شخص کے جانور ہاتھی، گھوڑا، بیل وغیرہ چاہے اس کی مالیت کچھ بھی ہو یا پچاس روپے یا اس سے زیادہ کی مالیت کا کوئی بھی جانور کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کو بیکار کردیتا ہے تو ایسےنقصان پہنچانے والے شخص کو پانچ سال تک کی قید یا جرم یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا ایف آئی آر میں ملزم پر الزام یہ تھا کہ اس نے مرغی کے ساتھ زنا کرنے کے بعد اس کو جان سے ماردیا۔
ہمارے معاشرہ میں لوگ اپنے دشمنوں کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرواتے ہیں اور یہ بات عام ہے۔ جھوٹی ایف آئی آر کے حوالہ سے ایک پروگرام کا لنک میں نے نیچے ڈسکریپشن میں دیا ہے جسے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کس طرح جھوٹا میڈیکل بنوا کر ناقابل ضمانت سیکشن لگوائے گئے ہیں۔
لڑائی جھگڑے، چوری، ڈکیتی فراڈ کی ایف آئی آر پوری دنیا میں ہوتی ہیں لیکن جانور کے ساتھ زنا کی ایف آئی آر ایک مذائقہ خیز بات لگتی ہے جو کہ بالاخر قومی اور بین الاقوامی خبر بن جاتی ہے جیسا کہ اس ایف آئی آر میں ہوا ہے۔
میں حکومت سے گزارش کروں گا کہ قانون میں تبدیلی کرے اور 377 میں جہاں تک جانور سے بدفعلی کا تعلق ہے تو اس کیس کو ناقابل دست اندازی پولیس بنایا جائےاور اس جرم میں گرفتاری عدالتی وارنٹ کے ساتھ مشروط کی جائے تاکہ علاقہ مجسٹریٹ کی باقاعدہ انکوائری کے بعد ہی ملزم کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ورنہ ایک مرغی کی قیمت یہاں 150 روپے ہے اور دو جھوٹے گواہان بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں تاکہ اپنے دشمن کے خلاف جھوٹی ایف آئی درج کرواکراپنے ذاتی مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ اس صورت حال میں افراد کی جگ ہنسائی کہ ساتھ ساتھ پورے معاشرہ کی بھی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ سیکشن 429 جس میں دیگر جانورں کی قیمت 50 روپے تک یا اس سے زیادہ ہے جو کہ آج سے سو سال قبل لگائی گئی تھی اور یہ قیمت آج کے دور کے مطابق بہت ہی کم ہے اس میں بھی کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے شخص پر یہ الزام لگا سکتا ہے کہ ملز م نے اس کے جانور چاہے وہ چوزہ ہی کیوں نہ ہو اس کو جان سے مار دیا ہے اور اس پر بھی پولیس ایف آئی درج کر کے ملزم کو گرفتار کرسکتی ہے اس قانون میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے۔
429. Mischief by killing or maiming cattle, etc., of any value or any animal of the value of fifty rupees:
Whoever commits mischief by killing, poisoning, maiming or rendering useless, any elephant, camel, horse, mule, buffalo, bull, cow or ox, whatever may be the value there of or any other animal of the value of fifty rupees or upwards shall be punished with imprisonment of either description of term which may extend to five years, or with both.
اے آر واے کے ایک پروگرام سرعام نے پنجاب کے ایک شہر میں ایک آپریشن کیا تھا جس میں انہوں نے جھوٹا میڈیکل تھوڑے سے پیسوں میں بنوا کر سنجیدہ نوعیت کی جھوٹی ایف آئی درج کروانے کا آپریشن کیا تھا۔ اور اس بات کو ثابت کیا تھا اور یہ ثابت کیا تھا کہ پسوں سے ایف آئی آر درج کروانے کے لئے میڈیکل بنوایا جا سکتا ہے۔
جو لوگ وکالت اور تھانہ کچہری کی کلچر سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عام حالات میں ایف آئی آر درج کروانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اکثر ایف آئی درج کروانے کے لئے عدالت کے احکامات اور شفارشا ت کرائی جاتیں ہے تب کہیں جا کر ایف آئی درج ہوتی ہے ورنہ بعض اوقات بڑے بڑے جرائم کی ایف آئی بھی درج نہیں ہوتی۔
میں آج ایوان میں بیٹھے قانون داںوں سے گزارش کروں گا کہ مذکورہ بالا قوانین میں فورا ترمیم کی جائے اور جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنایا جائے اور ملز م کی گرفتار مجسٹریٹ کے حکم اور وارنٹ پر ہی کی جائے ورنہ اس ملک میں مرغیاں بے شمار ہیں کوئی بھی شخص ایک مرغی خرید کر اپنے مخا لفین کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتا ہے ۔
جانوروں کے ساتھ بدفعلی والے جرائم کے صرف الزام میں ہی ملزم کا معاشرہ میں مذاق بن جاتا ہے اورملزم اور ملزم کے گھر والوں کو شدید بدنامی کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔
ConversionConversion EmoticonEmoticon