اردو زبان کی اہمیت — جناب جواد ایس خواجہ، جج صاحب نے بیان کیا کہ” یہ نوٹ آئین کے آرٹیکل 251 ۱ور 28 کی رو سے اُ ردو میں بھی تحریر کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے "منیر حسین بھٹی بنام وفاق پاکستان" (PLD 2011 SC 407) اور "محمد یٰسین بنام وفاق پاکستان" (PLD 2012 SC 132)میں بھی ہم ان آئینی مندرجات کی اہمیت کی طرف توجہ دلا چکے ہیں اور سرکاری امور میں قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت اجاگر کر چکے ہیں۔ عدالتی کاروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نواسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے۔ اور اکثر فاضل وکلا٫ اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتا سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں۔ یہ فنی پیچیدگی تو اپنی جگہ مگر آرٹیکل 251 کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئین پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاسی ہے کہ وہ خود پر لاگو قانونی ضوابط اور پنے آئینی حقوق کی بابت صادر کئے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکمران جب اُن سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں، بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں۔ یہ نہ صرف عزت نفس کا تقاضا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے۔ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں۔ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔
تاریخ
ہمیں بتاتی ہے کہ یورپ میں ایک عرصہ تک کلیسائی عدالتون کا راج رہا جہاں شرع و
قانون کا بیان صرف لاطینی زبان میں ہوتا تھا، جو راہبوں اور شہزادوں کے سوا کسی کی
زبان نہ تھی۔ یہاں برصغیر پاک و ہند میں آریائی عہد میں حکمران طبقے نے قانون کو
سنسکرت کے حصار میں محدود کردیا تا کہ برہمنوں، شاستریوں اور پنڈتوں کے سوا کسی کے
پلے کچھ نہ پڑے۔ بعد میں درباری اور عدالتی زبان ایک عرصہ تک فارسی رہی جو
بادشاہوں، قاضیوں اور ریئسوں کی زبان تھی لیکن عوام کی زبان کی نہ تھی۔ انگریزوں
کے غلبے کے بعد لارڈ مکاؤلے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیر سایہ ہماری مقامی اور قومی
زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔ اور جس کے
نتیجہ میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے جس نے ایک قلیل لیکن قوی اور غالب اقلیت) جو انگریزی جانتی ہے اور عنانِ حکومت سنبھالے
ہے( اور عوام الناس جو انگریزی سے آشنا نہیں، کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا کردی
ہے جو کسی بھی طور قومی یکجہتی کے لیے کارگر نہیں۔ آئین پاکستان البتہ ہمارے عوام
کے سیاسی اور تہذیبی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے، جنھوں نے آرٹیکل 251 اور آرٹیکل
28 میں محکومانہ سوچ کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اور حکمرانوں کو بھی تحکمانہ رسم و
رواج رک کرنے اور سنتِ خادمانہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آئین کی تشریح سے متعلق فیصلے
اُ ردو میں سنایا کم سے کم ان کے تراجم اُ ردو میں کرانا اس سلسلے کی ایک چھوٹی سی
کٹری ہے۔ عدالت عظمٰی نے اسی کٹری کو آگے بڑھانے میں ایک شعبٔہ تراجم بھی قائم کیا
ہے جو عدالتی فیصلون کو عام زبان میں منتقل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
(Hamid Mir v. Federation of Pakistan (2013 SCMR 1880))
Article 251 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan is as under:-
251. National
language.—(1) The National language of Pakistan is Urdu, and arrangements
shall be made for its being used for official and other purposes within fifteen
years from the commencing day.
(2) Subject to clause (1), the English language
may be used for official purposes until arrangements are made for its
replacement by Urdu.
(3) Without prejudice to the status of the
National language, a Provincial Assembly may by law prescribe measures for the
teaching, promotion and use of a Provincial language in addition to the
National language.
A from the book of "Adil On The Law Of Writs"
ConversionConversion EmoticonEmoticon