علامہ محمد اقبال کا ذریعہ معاش وکالت تھا لیکن وہ پوری دنیا میں بطور شاعر جانے جاتے ہی۔ وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وکیل وکالت کہ شعبہ میں رہ کر منفی سوچ اور کردار کے مالک بن جاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج کل بہت سے نوجوان وکلاء خود یا ان کے والدین اپنے بچوں کووکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی یہی نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کے وکالت کے بعد جج بن جاویا کوئی بھی نوکری کر لینا لیکن وکالت سے بعض رہنا کیوں کہ اس سے تمہاری شخصیت پر برا اثر پڑے گا۔
علامہ محمد اقبال وکالت کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھے کسی شخص نے ایک مرتبہ اقبال کی شاعرانہ عظمت، بلند افکار اور لطیف مزاجی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ وکالت کا پیشہ زیادہ تر دروغ بیانی، انسانی خودغرضی کی کشاکش اور انسانی خباثتوں سے آلود رہتا ہے۔ آپ کی طبیعت اسے کیسے گوارہ کرتی ہے۔
خلیفہ صاحب کے جواب میں بیرسٹر اقبال نے یورپ کے چند ایسے مفکر شعراء کا نام لیا جو پیشہ کے اعتبار سے قانون دان تھے۔۔۔ پھر معمولات وکالت سے حاصل ہونے والے سبق کو مثبت انداز میں اجاگر کرتے ہوئے کہا؛
دیکھو ہماری نفسیات یہ ہے کہ انسانوں کے ادنٰی میلانات اور نفسانفسی دیکھ کر طبیعت میں بڑے زور کا ردعمل ہوتا ہے اور انسان کثافت (برائی) سے لطافت (اچھائی) کی طرف گریز(سفر) کرتا ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وکالت ایک منفی اور منفی لوگوں کا پیشہ ہے تو ان کا خیال بلکل غلط ہے دنیا کے زیادہ تر لیڈر وکالت کے پیشہ سے ہی وابسطہ رہے ہیں۔
اگر آپ آج بھی وکالت کی ڈگری ہونے کے باوجود سنی سنائی منفی باتوں کی وجہ سے وکالت نہیں کر رہے لیکن آپ کا دل وکالت کرنا چاہتا ہے تو آپ خود پر اعتماد کریں وکالت کے پیشہ اختیار کریں کیونکہ یہ شعبہ آپ میں چھپی بے شمار صلاحیتوں کو اجاگر کر دے گا۔
ConversionConversion EmoticonEmoticon